ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا گھر اور ہمارے خاندان کا ماحول ہماری شخصیت پر کتنا گہرا اثر ڈالتا ہے۔ بچپن میں ہم جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، وہ ہماری زندگی بھر کی راہ متعین کرتا ہے۔ کبھی کبھی، باہر سے سب کچھ بہترین اور شاندار نظر آتا ہے، لیکن اندرونی طور پر کسی بچے کو کن مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل والدین اور بچوں کے تعلقات کی پیچیدگیوں پر بہت زیادہ بات کی جاتی ہے۔مجھے ایڈرین کی خاندانی صورتحال کو دیکھ کر ہمیشہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ کیسے ایک بچے کی بظاہر پرتعیش زندگی بھی جذباتی خلاء کا شکار ہو سکتی ہے۔ میریکولس لیڈی بگ کے ہمارے پیارے ایڈرین ایگریسٹ کو ہی لے لیں۔ اس کی زندگی میں تمام مادی آسائشیں موجود ہیں، لیکن اس کے گھر کا ماحول، خاص طور پر اس کے والد کی غیر موجودگی اور ماں کی کمی، اس کی شخصیت کو کس طرح متاثر کرتی ہے، یہ ہم سب نے قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے ایسے حالات ایک شخص کو اندر سے تنہا اور بے چین بنا سکتے ہیں، خواہ وہ باہر سے کتنا ہی کامیاب کیوں نہ نظر آئے۔یہ صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ موجودہ دور میں خاندانوں کے اندرونی ڈھانچے اور بچوں کی نفسیاتی نشوونما پر بڑھتی ہوئی بحث کا ایک حصہ ہے۔ آج کل، سوشل میڈیا اور بلاگز پر ایسے موضوعات سب سے زیادہ زیر بحث رہتے ہیں کیونکہ یہ بہت سے لوگوں کے ذاتی تجربات سے جڑے ہیں۔ ان پہلوؤں کو سمجھنا ہمیں نہ صرف ایڈرین جیسے کرداروں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ اپنی زندگی میں بھی بہتر فیصلے کرنے کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔آئیے، آج ہم اسی پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
بچوں کی شخصیت پر خاندانی ماحول کے گہرے نقوش

مجھے ہمیشہ یہ لگتا ہے کہ ہم جو کچھ بچپن میں اپنے گھر میں دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، وہ ہماری شخصیت کی بنیاد بن جاتا ہے۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ جب بچے ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں جہاں انہیں بھرپور توجہ، پیار اور تحفظ ملتا ہے تو وہ دنیا کا سامنا زیادہ اعتماد سے کرتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک چمک ہوتی ہے، ایک ایسی چمک جو یہ بتاتی ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ کسی نہ کسی کے لیے اہم ہیں۔ لیکن اس کے برعکس، جب ایک بچے کو گھر میں جذباتی تنہائی کا سامنا ہوتا ہے، خواہ اس کے پاس تمام دنیاوی آسائشیں کیوں نہ ہوں، تو اس کی اندرونی دنیا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک خوبصورت باغ جسے پانی نہ دیا جائے، وہ باہر سے تو ہرا بھرا لگے گا لیکن اندر سے اس کی جڑیں سوکھ رہی ہوں گی۔ ایسے بچے اکثر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ وہ کافی اچھے نہیں ہیں یا ان کی خواہشات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ سوچ وقت کے ساتھ ان کے فیصلوں، ان کے تعلقات اور زندگی کے بارے میں ان کے پورے نقطہ نظر کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا خاموش زخم ہے جو اکثر نظر نہیں آتا لیکن اس کا درد بہت گہرا ہوتا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح ایک بظاہر خوشحال گھرانے کا بچہ اندر ہی اندر گھٹ رہا ہوتا ہے، صرف اس لیے کہ اسے وہ جذباتی سپورٹ نہیں ملی جو ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔
والدین کی موجودگی اور جذباتی تعلق کا فقدان
یہ ایک بہت ہی نازک مسئلہ ہے جہاں والدین کی جسمانی موجودگی کے باوجود جذباتی عدم موجودگی بچوں پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ مجھے یاد ہے میرے پڑوس میں ایک بچی تھی جس کے والدین ہمیشہ گھر پر ہوتے تھے، لیکن دونوں اپنے کاموں میں اتنے مصروف رہتے تھے کہ بچی کو کبھی وقت نہیں دیتے۔ وہ اکثر کھلونا لے کر اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھی رہتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ بچی جب بھی کسی سے ملتی تو بہت جھجکتی تھی، اسے دوسروں سے بات کرنے میں مشکل پیش آتی تھی اور وہ اکثر اکیلا رہنا پسند کرتی تھی۔ والدین سمجھتے تھے کہ وہ سب کچھ فراہم کر رہے ہیں، لیکن جذباتی رابطے کی کمی نے اسے اندر سے خالی کر دیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ ایک بھرے کمرے میں ہیں لیکن آپ کو کوئی دیکھ یا سن نہیں رہا۔ یہ احساس کسی بھی بچے کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور اسے یہ سکھا دیتا ہے کہ اس کی اپنی آواز کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کا محض موجود ہونا کافی نہیں، بلکہ ان کا بچوں کے ساتھ جذباتی طور پر جڑا ہونا، ان کی باتیں سننا اور ان کے احساسات کو سمجھنا کہیں زیادہ ضروری ہے۔
خاندانی تعلقات اور شخصیت کی بنیاد
خاندانی تعلقات ایک بچے کی شخصیت کی بنیاد ہوتے ہیں۔ جب یہ تعلقات مضبوط اور صحت مند ہوں تو بچے کو ایک مضبوط بنیاد ملتی ہے جس پر وہ اپنی زندگی کی عمارت کھڑی کر سکتا ہے۔ اس سے بچوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے، وہ اپنی رائے کا اظہار کرنا سیکھتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی اہلیت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر خاندانی تعلقات کشیدہ یا غیر مستحکم ہوں، تو بچوں کی شخصیت بھی اسی عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جن گھروں میں لڑائی جھگڑے عام ہوتے ہیں، وہاں کے بچے اکثر غصے، اضطراب یا افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ دنیا میں محبت اور سکون بھی موجود ہے۔ یہ چیزیں ان کے اندر خوف پیدا کرتی ہیں اور وہ ہمیشہ کسی نہ کسی خطرے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ایک بچے کو اپنے خاندان سے یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا کیسی ہے اور اس میں کیسے زندہ رہنا ہے۔ اگر یہ سبق ہی غلط ہو، تو بچے کو زندگی بھر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مادی آسائشیں بمقابلہ جذباتی استحکام
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہمارے بچوں کو تمام مادی آسائشیں مل جائیں تو ان کی زندگی کامیاب اور خوشگوار ہو گی۔ مہنگے کھلونے، برانڈڈ کپڑے، بہترین اسکول، اور ہر وہ چیز جو ان کے دوستوں کے پاس ہے، ہم انہیں دے دینا چاہتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو ہر وہ چیز مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے وہ خود محروم رہے ہوں، اور یہ ایک فطری بات ہے۔ لیکن کیا یہ سب کافی ہے؟ میرے خیال میں، مادی آسائشیں صرف ایک حد تک ہی خوشی دے سکتی ہیں۔ اصل خوشی اور ذہنی سکون کا تعلق جذباتی استحکام سے ہوتا ہے۔ اگر بچے کو تمام مادی سہولیات حاصل ہوں لیکن اسے والدین کا وقت، پیار اور جذباتی سپورٹ نہ ملے تو اس کی زندگی میں ایک گہرا خلاء پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ اندر سے تنہا اور غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔ اسے یہ نہیں سمجھ آتا کہ اتنی سب چیزیں ہونے کے باوجود وہ اداس کیوں ہے۔ میرے اپنے مشاہدے میں آیا ہے کہ وہ بچے جو مادی طور پر زیادہ امیر نہیں ہوتے لیکن انہیں اپنے خاندان سے بھرپور پیار اور وقت ملتا ہے، وہ زیادہ خوش، مطمئن اور مثبت شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ان میں زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی زیادہ ہمت ہوتی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے ان کے گھر والوں کا ہاتھ ہے۔
جذباتی سرمایہ کاری کی اہمیت
جذباتی سرمایہ کاری سے مراد یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو وقت دیں، ان کی باتیں سنیں، ان کے مسائل کو سمجھیں اور انہیں جذباتی طور پر سہارا دیں۔ یہ صرف اسکول فیس ادا کر دینا یا مہنگی چیزیں خرید دینا نہیں ہے، بلکہ ان کی دنیا میں شامل ہونا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک واقعہ، جہاں ایک بہت امیر گھرانے کے بچے نے صرف اس لیے خودکشی کی کوشش کی کیونکہ اسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کے والدین کے پاس اس کے لیے وقت نہیں۔ اس کے والدین نے اسے ہر طرح کی سہولت دی تھی، لیکن جذباتی سطح پر وہ اکیلا تھا۔ اس وقت مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ بچوں کے لیے سب سے قیمتی چیز والدین کا وقت اور ان کی غیر مشروط محبت ہے۔ جب ہم اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں، ان کی دلچسپیوں کو سمجھتے ہیں، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں، تو ہم دراصل ان کی شخصیت میں جذباتی استحکام کا بیج بو رہے ہوتے ہیں۔ یہ بیج وقت کے ساتھ پھلتا پھولتا ہے اور انہیں ایک مضبوط درخت بناتا ہے جو ہر طوفان کا مقابلہ کر سکے۔
تنہائی اور اس کے دیرپا اثرات
ایک بچے کے لیے تنہائی کا احساس بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اگر بچہ گھر میں تنہائی محسوس کرے تو وہ اکثر باہر کی دنیا میں سہارا تلاش کرتا ہے۔ یہ سہارا کبھی کبھی صحیح ہوتا ہے اور کبھی غلط۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے بچے جو گھر میں جذباتی طور پر تنہا ہوتے ہیں، وہ غلط دوستیوں کا شکار ہو جاتے ہیں یا سوشل میڈیا پر اپنا وقت گزارتے ہیں جہاں انہیں عارضی تسکین ملتی ہے۔ یہ تنہائی انہیں یہ سکھاتی ہے کہ انہیں اپنی مشکلات کو خود ہی حل کرنا ہے اور کسی سے مدد نہیں مانگنی۔ اس سے ان میں اعتماد کی کمی پیدا ہوتی ہے اور وہ مستقبل میں تعلقات بنانے میں بھی مشکل محسوس کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف ان کی تعلیمی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ ان کی پوری زندگی کو ایک غیر یقینی کی کیفیت میں دھکیل دیتا ہے۔
بچوں کی نفسیاتی نشوونما میں رابطے کی اہمیت
رابطہ، یعنی کمیونیکیشن، کسی بھی رشتے کی بنیاد ہوتی ہے، اور بچوں کی نفسیاتی نشوونما میں تو اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ جب والدین اپنے بچوں سے کھل کر بات کرتے ہیں، ان کی بات سنتے ہیں اور انہیں اپنی رائے کا اظہار کرنے کی آزادی دیتے ہیں، تو یہ ان کی شخصیت کو مضبوط بناتا ہے۔ مجھے اکثر یہ لگتا ہے کہ ہم بڑے بچوں کو چھوٹے سمجھ کر ان کی باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن ان کے بھی احساسات اور خیالات ہوتے ہیں جن کی قدر کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک مؤثر رابطہ بچوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے اور ان کی اہمیت ہے۔ اس سے وہ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور جب بھی انہیں کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ بلا جھجک اپنے والدین کے پاس آتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسے بہت سے بچوں کو دیکھا ہے جن کے والدین ان سے ہر چھوٹی بڑی بات پر بات کرتے ہیں، اور وہ بچے ہمیشہ زیادہ خود اعتماد اور ذہین نظر آتے ہیں۔ ان میں مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔
خاموشی کے دیواریں توڑنا
بعض اوقات والدین اور بچوں کے درمیان ایک خاموشی کی دیوار بن جاتی ہے جہاں دونوں ایک دوسرے سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ دیوار وقت کے ساتھ اتنی اونچی ہو جاتی ہے کہ اسے توڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ یہ خاموشی غلط فہمیوں کو جنم دیتی ہے اور تعلقات میں دوری پیدا کرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود پہل کریں اور بچوں کے ساتھ بات چیت کا ماحول بنائیں، خاص طور پر جب بچے نوجوانی کی عمر میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انہیں سب سے زیادہ رہنمائی اور بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم ان سے بات نہیں کریں گے تو وہ یہ رہنمائی کہیں اور سے حاصل کریں گے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ راستہ صحیح نہ ہو۔ خاموشی کی دیواروں کو توڑنے کے لیے والدین کو اپنے بچوں کے دوست بننا پڑے گا، ان کے ساتھ وقت گزارنا پڑے گا اور انہیں یہ یقین دلانا پڑے گا کہ وہ ہر حال میں ان کے ساتھ ہیں۔
مثبت رابطے کے فوائد
ایک مثبت اور فعال رابطہ نہ صرف بچوں کی نفسیاتی نشوونما کے لیے ضروری ہے بلکہ ان کے تعلیمی اور سماجی زندگی میں بھی بہتری لاتا ہے۔ جن بچوں کے والدین ان سے کھل کر بات کرتے ہیں، وہ اسکول میں بھی اچھا پرفارم کرتے ہیں، ان کے دوست زیادہ ہوتے ہیں اور وہ زندگی کے بارے میں زیادہ مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب بچے گھر میں اپنے احساسات کا اظہار کر سکتے ہیں تو وہ اسکول میں بھی زیادہ تخلیقی اور متحرک نظر آتے ہیں۔ یہ انہیں زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے اور ان کی شخصیت کو متوازن بناتا ہے۔ یہ انہیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کی رائے اہم ہے اور وہ کسی بھی مسئلے پر بات کر سکتے ہیں۔
خاندانی اقدار اور بچوں کا مستقبل
خاندانی اقدار وہ اصول اور روایات ہوتی ہیں جو ایک خاندان نسل در نسل منتقل کرتا ہے۔ یہ اقدار بچوں کی تربیت اور ان کے مستقبل کو گہرا متاثر کرتی ہیں۔ مجھے ہمیشہ یہ لگتا ہے کہ ہمارے گھر کی اقدار ہی ہمیں سکھاتی ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، زندگی میں کس چیز کو ترجیح دینی چاہیے اور دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے۔ جب بچے ایک ایسے گھر میں پروان چڑھتے ہیں جہاں انہیں ایمانداری، محنت، احترام اور ہمدردی جیسی اقدار سکھائی جاتی ہیں، تو وہ مستقبل میں بھی انہی اصولوں پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اقدار انہیں زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتی ہیں اور انہیں ایک بہتر انسان بننے میں مدد کرتی ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر ایسے خاندانوں کو دیکھا ہے جہاں والدین نے اپنے بچوں کو صرف کتابی علم نہیں دیا بلکہ زندگی کے حقیقی اصول سکھائے، اور ان بچوں نے ہمیشہ زندگی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان کی شخصیت میں ایک ایسی پختگی نظر آتی ہے جو صرف اچھی تربیت اور مضبوط اقدار سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
روایتی اقدار کا اثر
ہماری روایتی اقدار، جیسے بزرگوں کا احترام، رشتوں کی قدر کرنا، مہمان نوازی اور اجتماعی سوچ، بچوں کو ایک مضبوط سماجی ڈھانچہ فراہم کرتی ہیں۔ یہ انہیں یہ سکھاتی ہیں کہ وہ صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک بڑے سماج کا حصہ ہیں۔ جب بچے ان اقدار کو دیکھتے اور ان پر عمل کرتے ہیں، تو ان میں سماجی ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ آج بھی بہت سے خاندان ان روایتی اقدار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور اپنے بچوں کو ان کی اہمیت سکھا رہے ہیں۔ یہ اقدار انہیں جڑوں سے جوڑے رکھتی ہیں اور انہیں اپنی ثقافت اور ورثے پر فخر کرنا سکھاتی ہیں۔
جدید دور میں اقدار کا توازن
آج کے جدید دور میں جہاں ہر طرف تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، وہاں خاندانی اقدار کو برقرار رکھنا ایک چیلنج ہے۔ والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ کیسے روایتی اقدار کو جدید تعلیم اور خیالات کے ساتھ ملا کر اپنے بچوں کو ایک متوازن شخصیت دے سکتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کچھ والدین صرف جدیدیت کی طرف بھاگتے ہیں اور اپنی جڑوں کو بھول جاتے ہیں، جس سے بچوں میں ایک ثقافتی خلاء پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس، کچھ والدین صرف روایات پر زور دیتے ہیں اور جدید تقاضوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جس سے بچے معاشرے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ایک خوبصورت توازن قائم کیا جائے، تاکہ بچے اپنی اقدار پر قائم رہتے ہوئے دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔
باہر سے خوبصورت، اندر سے خالی: ایک تلخ حقیقت
یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا سامنا آج کل بہت سے خاندانوں کو ہے۔ باہر سے سب کچھ پرفیکٹ نظر آتا ہے، گھر بڑا ہے، کاریں اچھی ہیں، بچے مہنگے اسکولوں میں پڑھتے ہیں، لیکن اندرونی طور پر گھر میں سکون نہیں ہوتا۔ مجھے ذاتی طور پر ایسے کئی گھرانے یاد ہیں جہاں بچوں کی سالگرہ پر لاکھوں خرچ ہوتے تھے، لیکن سارا سال وہ اپنے والدین سے ایک لفظ پیار کا سننے کو ترستے تھے۔ وہ بچے اکثر اداس اور گم سم رہتے تھے۔ جب کوئی باہر کا شخص ان کے گھر آتا تو وہ خوشی کا ڈھونگ رچاتے، لیکن جیسے ہی مہمان جاتے، گھر پھر خاموش اور اداس ہو جاتا۔ یہ ایک بہت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ یہ بچوں کو یہ سکھاتی ہے کہ دکھاوٹ ہی سب کچھ ہے اور اندرونی جذبات کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ اپنی اصلیت چھپانا سیکھ جاتے ہیں اور زندگی بھر ایک نقاب پہن کر جیتے ہیں۔ یہ نہ صرف ان کی ذہنی صحت پر برا اثر ڈالتا ہے بلکہ انہیں دوسروں پر بھروسہ کرنے سے بھی روکتا ہے۔
دکھاوٹ کا زہر

سوشل میڈیا کے اس دور میں دکھاوٹ کا زہر بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ لوگ اپنی زندگی کی ایک پرفیکٹ تصویر پیش کرتے ہیں، جس میں ہر کوئی خوش نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اس تصویر کے پیچھے بہت سی اداسیاں اور مشکلات چھپی ہوتی ہیں۔ بچوں پر بھی اس کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ کتنے خوش ہیں اور ان کے پاس سب کچھ ہے، تو وہ اپنی کمیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ انہیں ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہنا ہے، خواہ وہ اندر سے کتنے ہی اداس کیوں نہ ہوں۔ یہ دکھاوٹ انہیں یہ نہیں سکھاتی کہ زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، بلکہ انہیں ایک مصنوعی دنیا میں قید کر دیتی ہے۔
معاشرتی دباؤ اور اس کے اثرات
معاشرتی دباؤ بھی اس دکھاوٹ کو بڑھاتا ہے۔ لوگ اکثر یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں اور پھر خود بھی وہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں اپنی اصلیت کو چھپانا پڑے۔ والدین اکثر بچوں کو ایسے کاموں پر مجبور کرتے ہیں جو وہ نہیں کرنا چاہتے، صرف اس لیے کہ معاشرہ انہیں قبول کرے یا ان کے بارے میں اچھی رائے قائم کرے۔ یہ دباؤ بچوں کی فطری صلاحیتوں اور ان کی اپنی خواہشات کو دبا دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک واقعہ جہاں ایک بچی کو زبردستی ڈانس کلاس میں بھیجا جا رہا تھا جبکہ اسے مصوری کا شوق تھا۔ اس دباؤ نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کر دیا اور وہ ایک غیر مطمئن بچی بن کر رہ گئی۔ معاشرتی دباؤ کے بجائے، ہمیں اپنے بچوں کی اندرونی صلاحیتوں اور خواہشات کی قدر کرنی چاہیے تاکہ وہ ایک خود مختار اور خوشگوار زندگی گزار سکیں۔
بچوں کو بااختیار بنانے میں والدین کا کردار
بچوں کو بااختیار بنانا میرے خیال میں والدین کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں زندگی کے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت دی جائے، انہیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع دیا جائے اور انہیں اتنا اعتماد دیا جائے کہ وہ کسی بھی مشکل کا مقابلہ کر سکیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب والدین اپنے بچوں پر اعتماد کرتے ہیں اور انہیں چھوٹے چھوٹے فیصلے خود کرنے کی اجازت دیتے ہیں، تو وہ بچے زیادہ ذمہ دار اور خود مختار بنتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اپنی ایک اہمیت ہے اور وہ اپنی زندگی کے مالک ہیں۔ یہ انہیں مستقبل کے لیے تیار کرتا ہے جہاں انہیں بڑے فیصلے خود کرنے پڑیں گے۔ ایک ایسے بچے کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور اپنی آواز اٹھا سکتا ہے، اور یہ سب کچھ والدین کی اچھی تربیت اور انہیں بااختیار بنانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔
فیصلہ سازی کی آزادی
بچوں کو شروع سے ہی چھوٹے چھوٹے فیصلے خود کرنے کی آزادی دینا چاہیے، جیسے کون سے کپڑے پہننے ہیں، کون سا کھلونا خریدنا ہے، یا کون سی کتاب پڑھنی ہے۔ یہ انہیں فیصلہ سازی کی صلاحیت سکھاتا ہے۔ اس کے بعد جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے جائیں، ان کو بڑے فیصلے کرنے میں شامل کرنا چاہیے۔ جب بچے اپنے فیصلوں کے نتائج خود دیکھتے ہیں، خواہ وہ اچھے ہوں یا برے، تو وہ ایک سبق سیکھتے ہیں جو انہیں زندگی بھر کام آتا ہے۔ یہ صرف ان کی خود اعتمادی نہیں بڑھاتا بلکہ انہیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا بھی موقع دیتا ہے۔
خطرات مول لینے کی ہمت
ایک بااختیار بچہ وہ ہوتا ہے جو خطرات مول لینے کی ہمت رکھتا ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لاپرواہ ہو، بلکہ یہ کہ وہ ناکامی سے نہیں ڈرتا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ سکھائیں کہ ناکامی کوئی بری چیز نہیں، بلکہ یہ سیکھنے کا ایک موقع ہے۔ میں نے ایسے بہت سے بچوں کو دیکھا ہے جنہیں بچپن میں ہر چیز سے روکا جاتا تھا، وہ بڑے ہو کر کسی بھی نئے کام کو شروع کرنے سے ڈرتے ہیں۔ انہیں لگتا تھا کہ وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس کے برعکس، جن بچوں کو چیلنجز کا سامنا کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، وہ زیادہ بہادر اور تخلیقی ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ گر بھی جائیں تو ان کے والدین انہیں سہارا دیں گے۔ یہ ہمت انہیں زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔
خاندانی ماحول: ایک موازنہ
آئیے، ایک نظر دیکھتے ہیں کہ مختلف قسم کے خاندانی ماحول کس طرح بچوں کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ محض ایک موازنہ ہے جو میرے مشاہدے پر مبنی ہے اور اس کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ شعور بیدار کرنا ہے۔
| خاندانی ماحول کی قسم | والدین کا رویہ | بچے پر اثرات |
|---|---|---|
| صحت مند اور معاون | بھرپور پیار، وقت دینا، بات چیت، مثبت رہنمائی، اعتماد | خود اعتمادی، مضبوط شخصیت، جذباتی استحکام، بہتر تعلقات، کامیابی کا رجحان |
| سخت گیر اور کنٹرول کرنے والا | ہر بات میں کنٹرول، تنقید، آزادی پر قدغنیں، خوف | اضطراب، خود اعتمادی کی کمی، بغاوت یا حد سے زیادہ فرمانبرداری، تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان |
| غفلت برتنے والا یا غیر حاضر | جذباتی اور جسمانی طور پر غیر موجودگی، ضروریات کو نظر انداز کرنا، عدم توجہ | تنہائی، جذباتی خلاء، تعلقات میں مشکلات، جذباتی بے حسی، غلط راستوں کا انتخاب |
| متضاد اور کشیدہ | آپسی لڑائی جھگڑے، عدم استحکام، متضاد پیغامات، غصہ | غیر یقینی کی کیفیت، ذہنی دباؤ، جذباتی عدم توازن، دوسروں پر عدم اعتماد، جارحانہ رویہ |
میں نے ہمیشہ یہی محسوس کیا ہے کہ ہمارے بچے ہمارے گھر کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایک خوبصورت اور روشن مستقبل کے مالک ہوں تو ہمیں اپنے گھر کے ماحول کو بھی اسی طرح خوبصورت اور روشن بنانا ہوگا۔ یہ صرف مادی آسائشوں سے نہیں بلکہ ہماری محبت، ہمارے وقت، ہماری سمجھ اور ہمارے صبر سے ممکن ہے۔ یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ بعض اوقات والدین اپنی انا یا دیگر مسائل کی وجہ سے بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ بچوں کو ایک پرسکون اور محبت بھرا ماحول دینا ہماری سب سے پہلی اور سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
بچوں کی ذہنی صحت اور مستقبل کی نسلیں
بچوں کی ذہنی صحت ایک ایسا موضوع ہے جس پر آج کل بہت زیادہ بات ہو رہی ہے، اور اس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ جب بچے ذہنی طور پر صحت مند ہوں گے، تو وہ ایک خوشحال اور کامیاب زندگی گزار سکیں گے۔ مجھے اکثر یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ آج کل بہت سے بچے ذہنی دباؤ، اضطراب اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کے خاندانی ماحول میں پائی جانے والی خامیاں ہیں۔ اگر ہم آج اپنے بچوں کی ذہنی صحت پر توجہ نہیں دیں گے، تو ہم ایک ایسی نسل تیار کریں گے جو اندر سے کھوکھلی ہوگی اور جو معاشرے کو کچھ نہیں دے پائے گی۔ بچوں کی ذہنی صحت اتنی ہی اہم ہے جتنی ان کی جسمانی صحت۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک خوش اور ذہنی طور پر صحت مند بچہ ہی مستقبل میں ایک اچھا شہری، ایک اچھا والدین اور ایک اچھا انسان بن سکتا ہے۔
ابتدائی سالوں کی اہمیت
بچپن کے ابتدائی سال، خاص طور پر پہلے پانچ سال، بچوں کی ذہنی اور جذباتی نشوونما کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ اس وقت میں جو کچھ وہ دیکھتے، سنتے اور محسوس کرتے ہیں، وہ ان کے دماغ میں گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ جو بچے ان ابتدائی سالوں میں پیار، توجہ اور مثبت ماحول حاصل کرتے ہیں، وہ زندگی بھر زیادہ محفوظ اور خوش رہتے ہیں۔ ان کے دماغ میں مثبت تصورات بنتے ہیں جو انہیں چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر ان ابتدائی سالوں میں بچے کو نظر انداز کیا جائے یا اسے منفی تجربات سے گزرنا پڑے، تو اس کے اثرات اس کی پوری زندگی پر مرتب ہوتے ہیں اور اسے ذہنی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
والدین کا رول ماڈل ہونا
والدین اپنے بچوں کے لیے پہلے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ بچے وہ سب کچھ سیکھتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتے اور کہتے دیکھتے ہیں۔ اگر والدین خود غصے، پریشانی یا عدم استحکام کا شکار ہوں، تو بچے بھی وہی رویہ اپناتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے جب والدین خود پر کام کرتے ہیں، اپنی خامیوں کو دور کرتے ہیں اور اپنے بچوں کے سامنے ایک مثبت مثال پیش کرتے ہیں۔ یہ انہیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی میں کیسے چلنا ہے، کیسے اپنے مسائل کو حل کرنا ہے اور کیسے دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہے۔ ایک اچھا رول ماڈل بن کر والدین اپنے بچوں کو زندگی کا سب سے قیمتی تحفہ دے سکتے ہیں، اور وہ ہے ایک مضبوط اور مثبت شخصیت۔
بات کو سمیٹتے ہوئے
تو دوستو، مجھے امید ہے کہ آج کی اس بات چیت سے آپ کو یہ بخوبی سمجھ آ گیا ہوگا کہ ہمارے بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں خاندانی ماحول کی کتنی گہری اہمیت ہے۔ یہ صرف مکان کی چار دیواریں نہیں، بلکہ وہ محبت، توجہ اور احساسات ہیں جو ہم انہیں دیتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایک خوشحال، پراعتماد اور کامیاب زندگی گزاریں، تو ہمیں ان کے اندرونی جذباتی ماحول کو بھی اتنا ہی مضبوط اور خوبصورت بنانا ہوگا جتنا ہم ان کے بیرونی دنیا کو دیتے ہیں۔ یاد رکھیں، آپ کا وقت اور آپ کا پیار کسی بھی قیمتی تحفے سے بڑھ کر ہے۔
جاننے کے لیے مفید معلومات
1. جذباتی ذہانت کی اہمیت: بچوں کو صرف کتابی علم ہی نہیں، بلکہ جذباتی ذہانت بھی سکھائیں۔ انہیں اپنے احساسات کو پہچاننا اور دوسروں کے احساسات کو سمجھنا سکھائیں۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ جو بچے جذباتی طور پر مضبوط ہوتے ہیں، وہ زندگی کے چیلنجز کا زیادہ مؤثر طریقے سے مقابلہ کرتے ہیں۔ انہیں غصہ، خوف یا اداسی جیسی کیفیات کو سنبھالنے کا طریقہ سکھانا بہت ضروری ہے۔ آپ ان سے دن بھر کے واقعات کے بارے میں پوچھیں، ان سے پوچھیں کہ انہیں کیسا محسوس ہوا، اور پھر انہیں ان احساسات کو بیان کرنے کی ترغیب دیں۔ یہ ان کی جذباتی لغت کو بہتر بنائے گا اور انہیں ایک متوازن انسان بننے میں مدد دے گا۔ انہیں یہ سکھانا کہ “غصہ کرنا ٹھیک ہے لیکن غصے میں کسی کو نقصان پہنچانا ٹھیک نہیں”، ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ان کی جذباتی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسا سبق ہے جو سکول میں نہیں پڑھایا جاتا لیکن زندگی کے ہر قدم پر کام آتا ہے۔ اس سے انہیں دوسروں سے تعلقات بنانے اور زندگی کی اونچ نیچ کو سمجھنے میں بھی آسانی ہوگی۔ وہ سمجھ پائیں گے کہ ہر انسان کے اندر مختلف جذبات ہوتے ہیں اور ان کا اظہار کیسے کرنا ہے۔
2. اچھا رول ماڈل بنیں: آپ کے بچے آپ کو دیکھ کر ہی سیکھتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ بااخلاق، ایماندار اور محنتی بنیں، تو پہلے خود ویسے بنیں۔ آپ کا ہر عمل ان کے لیے ایک سبق ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ والدین اگر خود کتاب پڑھنے کا شوق رکھتے ہوں، تو بچے بھی پڑھائی کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اگر آپ گھر میں احترام اور پیار کا ماحول رکھتے ہیں، تو بچے بھی دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرنا سیکھتے ہیں۔ یہ نہ صرف آپ کے بچوں کو بہتر بناتا ہے بلکہ آپ کے اپنے تعلقات میں بھی بہتری لاتا ہے۔ آپ کا رویہ، آپ کی عادات اور آپ کا دوسروں کے ساتھ برتاؤ، یہ سب بچوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ انہیں سکھائیں کہ مشکلات میں کیسے صبر کرنا ہے اور کامیابی میں کیسے شکر ادا کرنا ہے۔ اپنی باتوں پر قائم رہنا، وعدے پورے کرنا، اور ہمیشہ سچ بولنا، یہ وہ بنیادی اصول ہیں جو اگر آپ بچوں کے سامنے اپنائیں گے تو وہ خود بخود سیکھ جائیں گے۔ یہ بات آپ کو شاید معمولی لگے لیکن اس کا اثر نسلوں تک جاتا ہے۔
3. کھلی بات چیت کا ماحول: گھر میں ایسا ماحول بنائیں جہاں بچے کسی بھی بات کو لے کر آپ سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ انہیں یہ یقین ہو کہ آپ انہیں سنیں گے اور سمجھیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دوست کے گھر میں بچے اپنے تمام مسائل اپنے والدین سے شیئر کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ کبھی کسی غلط راستے پر نہیں گئے۔ والدین کا دوست بن کر رہنا بہت ضروری ہے، خاص طور پر جب بچے نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہوں۔ ان کے سوالات کا صبر سے جواب دیں، خواہ وہ کتنے ہی عجیب کیوں نہ لگیں۔ انہیں اپنی رائے کا اظہار کرنے کی آزادی دیں اور انہیں احساس دلائیں کہ ان کی بات کی اہمیت ہے۔ یہ صرف ان کی خود اعتمادی نہیں بڑھاتا بلکہ آپ دونوں کے درمیان ایک مضبوط رشتے کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔ اکثر ہم اپنی روزمرہ کی مصروفیت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں سے “آج کا دن کیسا گزرا؟” جیسے عام سوال بھی کتنے اہم ہوتے ہیں۔ یہ سوالات ہی بات چیت کا دروازہ کھولتے ہیں۔
4. حدود اور نظم و ضبط: بچوں کو پیار کے ساتھ ساتھ حدود اور نظم و ضبط سکھانا بھی ضروری ہے۔ انہیں یہ معلوم ہو کہ کون سی چیزیں صحیح ہیں اور کون سی غلط۔ یہ انہیں ذمہ دار بناتا ہے اور انہیں زندگی کے اصولوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ جن بچوں کو کوئی حدود نہیں سکھائی جاتیں، وہ بڑے ہو کر خود سر اور غیر ذمہ دار ہو جاتے ہیں۔ انہیں قوانین کی اہمیت سمجھائیں، لیکن یہ سب کچھ پیار اور نرمی سے کریں۔ سخت رویہ انہیں باغی بنا سکتا ہے، جبکہ پیار بھرا نظم و ضبط انہیں سدھارتا ہے۔ انہیں سکھائیں کہ دوسروں کی چیزوں کا احترام کریں اور اپنے فیصلوں کے نتائج کو قبول کریں۔ انہیں اپنے کام خود کرنے کی ترغیب دیں، جیسے اپنا بستر ٹھیک کرنا یا اپنی چیزیں جگہ پر رکھنا۔ یہ انہیں ایک منظم اور کامیاب زندگی گزارنے میں مدد دے گا۔ یہ چھوٹے چھوٹے کام انہیں بڑے فیصلوں کے لیے تیار کرتے ہیں۔
5. وقت کا صحیح استعمال: اپنے بچوں کے ساتھ باقاعدگی سے معیاری وقت گزاریں۔ یہ صرف ان کے ساتھ کھیلنے یا پڑھانے تک محدود نہیں، بلکہ ان کی دنیا میں شامل ہونا ہے۔ انہیں بتائیں کہ آپ ان سے کتنا پیار کرتے ہیں اور انہیں کتنا اہمیت دیتے ہیں۔ آج کل والدین اپنے کاموں میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ وہ بچوں کو وقت ہی نہیں دے پاتے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے بچے کس طرح اکیلے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ کھانا کھائیں، ان کے ساتھ سیر پر جائیں، اور انہیں کہانیاں سنائیں۔ انہیں بتائیں کہ ان کی باتیں آپ کے لیے کتنی معنی رکھتی ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے لمحات ان کی یادوں کا حصہ بنتے ہیں اور انہیں ایک مضبوط جذباتی تعلق کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ وقت آپ دونوں کے رشتے کو مضبوط بناتا ہے اور انہیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی صرف کام ہی نہیں بلکہ پیار اور رشتوں کے بارے میں بھی ہے۔ ایک گھنٹہ روزانہ کی یہ جذباتی سرمایہ کاری آپ کے بچوں کے مستقبل کو سنوار سکتی ہے۔
اہم باتوں کا خلاصہ
آج کی اس تفصیلی گفتگو کا نچوڑ یہی ہے کہ خاندانی ماحول، بچوں کی شخصیت کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ صرف گھر کی زیبائش یا مادی آسائشیں نہیں، بلکہ وہ جذباتی بنیادیں ہیں جو ہم انہیں فراہم کرتے ہیں۔ ایک محبت بھرا، معاون اور بات چیت پر مبنی ماحول بچوں میں خود اعتمادی، جذباتی استحکام اور زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس، غفلت، کشیدگی یا صرف مادی آسائشوں پر توجہ، بچوں کی اندرونی دنیا کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یاد رکھیں، ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں، اور ان کی خوشحالی اور ذہنی صحت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انہیں وقت دیں، ان سے بات کریں، اور انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ آپ کے لیے سب سے قیمتی ہیں۔ یہی وہ سرمایہ کاری ہے جو آپ کی آئندہ نسلوں کو مضبوط اور خوشحال بنائے گی۔ یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ بچوں کے ساتھ گزارا ہوا ہر لمحہ ان کی زندگی میں ایک مثبت فرق پیدا کرتا ہے، اور اس کا اثر انہیں پوری زندگی کام آتا ہے۔ یہ ایسا قیمتی اثاثہ ہے جسے صرف محبت اور توجہ سے ہی کمایا جا سکتا ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: بظاہر کامیاب اور خوشحال نظر آنے والے بچوں کو اندرونی طور پر کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟
ج: دیکھیں، اکثر ہم باہر سے کسی کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ “واہ! کتنی اچھی زندگی ہے اس کی!” لیکن ضروری نہیں کہ ہر چمکتی چیز سونا ہو۔ میرا اپنا تجربہ ہے اور میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ جن بچوں کو دنیا کی ہر آسائش میسر ہوتی ہے، جن کے پاس مہنگے کھلونے، جدید گیجٹس اور ہر سہولت ہوتی ہے، وہ بھی اندر سے ٹوٹے ہوئے اور تنہا محسوس کر سکتے ہیں۔ ایڈرین کی مثال لیں، اسے کیا کمی تھی؟ پھر بھی وہ اپنے والد کی عدم توجہی اور ماں کی کمی کی وجہ سے ایک جذباتی خلاء کا شکار رہا۔ اس کی شخصیت میں ایک عجیب سی بیچارگی اور تنہائی جھلکتی تھی۔ ایسے بچوں کو لگتا ہے کہ شاید انہیں کبھی مکمل طور پر سمجھا نہیں جائے گا یا انہیں صرف ان کی مادی چیزوں کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے۔ وہ جذباتی طور پر غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور اکثر انہیں اپنی مرضی کا اظہار کرنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ جب والدین کا پیار، توجہ اور وقت میسر نہ ہو، تو یہ تمام مادی چیزیں بے معنی ہو جاتی ہیں اور بچے اندر ہی اندر گھٹتے رہتے ہیں۔
س: والدین کی غیر موجودگی یا نامکمل خاندانی ماحول بچوں کی شخصیت پر کیسے گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے؟
ج: جب والدین میں سے کوئی ایک موجود نہ ہو، یا دونوں ہی اپنی ذمہ داریاں صحیح سے نہ نبھا رہے ہوں، تو اس کا بچوں کی شخصیت پر بہت گہرا اور بعض اوقات ساری زندگی رہنے والا اثر پڑتا ہے۔ میں نے خود کتنے لوگوں کو دیکھا ہے جنہیں بچپن میں والدین کی مکمل توجہ نہیں ملی، وہ بڑے ہو کر تعلقات بنانے میں، دوسروں پر بھروسہ کرنے میں اور اپنی جذباتی ضروریات کو سمجھنے میں بہت مشکل محسوس کرتے ہیں۔ والد کی غیر موجودگی سے بچوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے، وہ صحیح اور غلط کی پہچان میں الجھ سکتے ہیں اور مثبت رول ماڈل کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ ایسے بچے اکثر نفسیاتی مسائل جیسے ڈپریشن، اینگزائٹی اور غصے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایڈرین کو بھی دیکھ لیں، اس کی ساری زندگی ایک ایسے ماحول میں گزری جہاں اسے باپ کا پیار اور ماں کی موجودگی نہیں ملی، جس کی وجہ سے وہ خود کو تنہا محسوس کرتا تھا اور ہمیشہ دوسروں کی منظوری کا محتاج رہا۔ یہ بچوں کی تعلیمی کارکردگی پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے اور ان میں خود اعتمادی کی کمی پیدا کر سکتا ہے۔
س: والدین اپنے بچوں کو ایک مضبوط اور جذباتی طور پر مستحکم ماحول کیسے فراہم کر سکتے ہیں، خاص کر جب حالات مشکل ہوں؟
ج: حالات چاہے جتنے بھی مشکل ہوں، والدین کا سب سے اہم کردار یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جذباتی طور پر مستحکم اور محبت بھرا ماحول دیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے اپنے بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزاریں۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ گھنٹوں ساتھ بیٹھیں، بلکہ جتنا بھی وقت دیں وہ توجہ سے دیں۔ ان کی باتیں سنیں، ان کے سوالوں کے جواب دیں، اور ان کے احساسات کو سمجھیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب والدین اپنے بچوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور انہیں بغیر کسی شرط کے پیار کرتے ہیں، تو بچے خود بخود مضبوط ہو جاتے ہیں۔ انہیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع دیں، اور ان کی کامیابیوں پر ان کی تعریف کریں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ ان کے لیے ایک مثبت رول ماڈل بنیں۔ جو بات آپ ان سے منوانا چاہتے ہیں، پہلے خود اس پر عمل کریں۔ انہیں نظم و ضبط سکھائیں لیکن محبت کے ساتھ۔ اگر آپ انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ محفوظ ہیں، ان کی بات سنی جاتی ہے اور ان کے جذبات کی قدر کی جاتی ہے، تو وہ دنیا کے کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ یاد رکھیں، صرف مالی امداد نہیں، جذباتی سپورٹ اصل سرمایہ ہے۔





